فارسی زبان میں چند کتابوں میں جو شہرت شیخ سعدی کی حکایتوں پر مشتمل کتابوں کو حاصل ہوئی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ حضرت سعدی کی حکایات پڑھ کر بے اختیار دل جھوم اٹھتا ہے۔ ان کی سادہ اور اخلاقی حکایتیں فارسی کی وہ نثر ہے جس میں ہمارے لیے ایک جہان پوشیدہ ہے۔
دنیا کی کئی زبانوں جرمنی، فرانسیسی، ہندی، انگریزی، اردو اور مختلف خطّوں کی مقامی زبانوں میں بھی ان کی حکایات کا ترجمہ مقبول ہوا۔ یہاں ہم شیخ سعدی سے منسوب ایک حکایت بعنوان ‘کسرِ نفسی کا درجہ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔
ایک سال دریائے نیل نے مصر کی زمین کو سیراب نہ کیا۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار پیدا ہو گئے اور لوگ بلبلا اٹھے۔ کچھ لوگ حضرت ذوالنون مصری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ اللہ والے ہیں، دعا کریں کہ بارش ہو جائے۔ قحط پڑا تو مخلوق خدا کے ہلاک ہو جانے کا خطرہ ہے۔
جب لوگ چلے گئے تو حضرت ذوالنون مصری نے اپنا سامان سفر باندھا اور ملک بدین کی طرف نکل گئے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ گھٹا چھاگئی اور کھل کر مینہ برسا۔ جل کا تھل ہو گیا۔ قحط کا خطرہ ٹل گیا۔
حضرت ذوالنون مصری بارش ہونے کے بیس روز بعد واپس اپنے علاقہ تشریف لائے تو لوگوں نے وطن چھوڑ کر چلے جانے کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا۔
"لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث جانوروں، پرندوں کا رزق کم ہو جاتا ہے۔ اس لیے خیال کیا کہ اس سرزمین میں سب سے زیادہ گناہ گار اور خطا کار میں ہی ہوں چنانچہ یہاں سے چلا گیا۔”
اس حکایت سے ہم کو سبق یہ دیا گیا کہ حضرت کا ایسا فرمانا ازراہِ کسر نفسی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خاکسار انسان ہی سرفراز ہوتا ہے۔ کسر نفسی کا درجہ بہت بڑا ہے۔ خاکسار بن کر اور غرور و پارسائی سے بچ کر ہی انسان سرخرو ہوتا ہے۔